یہ روز و شب کا تسلسل رواں دواں ہی رہا
یہ غم رسیدوں کی تقدیر میں زیاں ہی رہا
تری زباں تھی مرے واسطے پہ دل کہیں اور
تری روش کا یہ انداز درمیاں ہی رہا
اٹھائے پھرتے رہے ہم یہ درد کی گٹھری
مگر یہ درد محبت کہ بے اماں ہی رہا
جب آئی رات امنڈ آئے یاد کے جگنو
پھر اس کے بعد تو اک جشن کا سماں ہی رہا
بہت دنوں میں یہ تخلیق کی پھوار پڑی
میں خوف جہل مرکب سے بے زباں ہی رہا
مرے لہو میں بھی اتریں کبھی نئے موسم
یہ آرزو رہی میری مرا گماں ہی رہا
کچھ ایسے دور بھی تاہم گرفت میں آئے
کہ یہ زمیں رہی باقی نہ آسماں ہی رہا
غزل
یہ روز و شب کا تسلسل رواں دواں ہی رہا
صدیق شاہد