اتنا نور کہاں سے لاؤں تاریکی کے اس جنگل میں
دو جگنو ہی پاس تھے اپنے جن کو ستارہ کر رکھا ہے
شعیب نظام
خود سے فرار اتنا آسان بھی نہیں ہے
سائے کریں گے پیچھا کوئی کہیں سے نکلے
شعیب نظام
کدھر ڈبو کے کہاں پر ابھارتا ہے تو
یہ کیسا رنگ ہے دریا تری روانی کا
شعیب نظام
کیا ختم نہ ہوگی کبھی صحرا کی حکومت
رستے میں کہیں تو در و دیوار بھی آئے
شعیب نظام
مری تلاش میں اس پار لوگ جاتے ہیں
مگر میں ڈوب کے اس پار سے نکلتا ہوں
شعیب نظام
مری تلاش میں وہ بھی ضرور آئے گا
سو میں بھی چشم خریدار سے نکلتا ہوں
شعیب نظام
میاں بازار کو شرمندہ کرنا کیا ضروری ہے
کہیں اس دور میں تہذیب کے زیور بدلتے ہیں
شعیب نظام
تمہارے خواب لوٹانے پہ شرمندہ تو ہیں لیکن
کہاں تک اتنے خوابوں کی نگہبانی کریں گے ہم
شعیب نظام
یہ ایک سایہ غنیمت ہے روک لو ورنہ
یہ روشنی کے بدن سے لپٹنے والا ہے
شعیب نظام