نخل دعا کبھی جب دل کی زمیں سے نکلے
سائے بھی کچھ گماں کے برگ یقیں سے نکلے
نظریں جمائے رکھنا امید کے کھنڈر پر
ممکن ہے اب کے سورج اس کی جبیں سے نکلے
خود سے فرار اتنا آسان بھی نہیں ہے
سائے کریں گے پیچھا کوئی کہیں سے نکلے
زخمی انا کو یوں میں ہر بار چھیڑتا ہوں
مثبت سا اک اشارہ شاید کہیں سے نکلے
انگلی میں جب بھی اس نے انگشتری گھمائی
کیا کیا حسین پیکر عکس نگیں سے نکلے
غزل
نخل دعا کبھی جب دل کی زمیں سے نکلے
شعیب نظام