بس اپنی خاک پر اب خود ہی سلطانی کریں گے ہم
اسی مٹی پہ رنگوں کی فراوانی کریں گے ہم
اسے رونے دو مت روکو کہ رونا بھی ضروری ہے
کبھی اس آتش سیال کو پانی کریں گے ہم
تمہارے خواب لوٹانے پہ شرمندہ تو ہیں لیکن
کہاں تک اتنے خوابوں کی نگہبانی کریں گے ہم
محبت میں یہ شرطیں تو تجارت بنتی جاتی ہیں
تری خاطر کہاں تک کار لا ثانی کریں گے ہم
بہت بے زار کر رکھا ہے ہم کو کار دنیا نے
کسی کے دل میں اب کچھ روز مہمانی کریں گے ہم
یہ رشتہ دوستی کا لطف سے خالی ہے سو اس کو
کسی تدبیر سے اب دشمن جانی کریں گے ہم
غزل
بس اپنی خاک پر اب خود ہی سلطانی کریں گے ہم
شعیب نظام