عجب طلسم ہے نیرنگ جاودانی کا
کہ ٹوٹتا ہی نہیں نشہ خود گمانی کا
سفر تمام ہوا جب سراب کا تو کھلا
عجیب ذائقہ ہوتا ہے ٹھنڈے پانی کا
جہاں پہ ختم وہیں سے شروع ہوتی ہے
تبھی تو ذکر مسلسل ہے اس کہانی کا
کدھر ڈبو کے کہاں پر ابھارتا ہے تو
یہ کیسا رنگ ہے دریا تری روانی کا
وہ مجھ میں اب بھی وہی حوصلے تلاشتا ہے
کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں بدل جوانی کا
غزل
عجب طلسم ہے نیرنگ جاودانی کا
شعیب نظام