کسی نادیدہ شے کی چاہ میں اکثر بدلتے ہیں
کبھی آنکھیں کبھی چہرہ کبھی منظر بدلتے ہیں
کسی محفوظ گوشے کی طلب مجبور کرتی ہے
مکیں بدلے نہیں جاتے ہیں سو ہم گھر بدلتے ہیں
میاں بازار کو شرمندہ کرنا کیا ضروری ہے
کہیں اس دور میں تہذیب کے زیور بدلتے ہیں
یہ انجانے پرندے کون سے جنگل سے آئے ہیں
جو ہر پرواز سے پہلے نئے شہ پر بدلتے ہیں
اسی سے صورت حالات کی تصویر بنتی ہے
اسی کے ڈر سے ہم لوگ اپنا اپنا در بدلتے ہیں
ستارا سا مری آغوش میں کچھ تو چمکتا ہے
جھلک پانے کی جس کو آئینے محور بدلتے ہیں
غزل
کسی نادیدہ شے کی چاہ میں اکثر بدلتے ہیں
شعیب نظام