EN हिंदी
کسی نادیدہ شے کی چاہ میں اکثر بدلتے ہیں | شیح شیری
kisi nadida shai ki chah mein aksar badalte hain

غزل

کسی نادیدہ شے کی چاہ میں اکثر بدلتے ہیں

شعیب نظام

;

کسی نادیدہ شے کی چاہ میں اکثر بدلتے ہیں
کبھی آنکھیں کبھی چہرہ کبھی منظر بدلتے ہیں

کسی محفوظ گوشے کی طلب مجبور کرتی ہے
مکیں بدلے نہیں جاتے ہیں سو ہم گھر بدلتے ہیں

میاں بازار کو شرمندہ کرنا کیا ضروری ہے
کہیں اس دور میں تہذیب کے زیور بدلتے ہیں

یہ انجانے پرندے کون سے جنگل سے آئے ہیں
جو ہر پرواز سے پہلے نئے شہ پر بدلتے ہیں

اسی سے صورت حالات کی تصویر بنتی ہے
اسی کے ڈر سے ہم لوگ اپنا اپنا در بدلتے ہیں

ستارا سا مری آغوش میں کچھ تو چمکتا ہے
جھلک پانے کی جس کو آئینے محور بدلتے ہیں