EN हिंदी
دروں کو چنتا ہوں دیوار سے نکلتا ہوں | شیح شیری
daron ko chunta hun diwar se nikalta hun

غزل

دروں کو چنتا ہوں دیوار سے نکلتا ہوں

شعیب نظام

;

دروں کو چنتا ہوں دیوار سے نکلتا ہوں
میں خود کو جیت کے اس ہار سے نکلتا ہوں

تجھے شناخت نہیں ہے مرے لہو کی کیا
میں روز صبح کے اخبار سے نکلتا ہوں

مری تلاش میں اس پار لوگ جاتے ہیں
مگر میں ڈوب کے اس پار سے نکلتا ہوں

عجیب خوف ہے دونوں کو کیا کیا جائے
میں قد میں اپنے ہی سردار سے نکلتا ہوں

اب آگے فیصلہ قسمت پہ چھوڑ کے میں بھی
طلسم ثابت و سیار سے نکلتا ہوں

سنی ہے میں نے کسی سمت سے وہی آواز
سنو میں گردش پرکار سے نکلتا ہوں

مری تلاش میں وہ بھی ضرور آئے گا
سو میں بھی چشم خریدار سے نکلتا ہوں

نتیجہ جو بھی ہو جائے اماں ملے نہ ملے
میں اب خرابۂ پرکار سے نکلتا ہوں