ٹوٹے ہوئے خوابوں کے طلب گار بھی آئے
اے جنس گراں تیرے خریدار بھی آئے
مدت ہوئی سنتے ہوئے تمہید طلسمات
اب قصے میں آگے کوئی کردار بھی آئے
کیا ختم نہ ہوگی کبھی صحرا کی حکومت
رستے میں کہیں تو در و دیوار بھی آئے
اب جس کے اثر میں ہے یہ ویران حویلی
وہ سایہ کبھی تو پس دیوار بھی آئے
پھر شہر میں ایام گزشتہ کی اڑی راکھ
پھر زد میں کئی جبہ و دستار بھی آئے
پہلے تو سبھی تیرے سراپا میں ہوئے گم
پھر ذکر میں آگے ترے اطوار بھی آئے

غزل
ٹوٹے ہوئے خوابوں کے طلب گار بھی آئے
شعیب نظام