سفر سرابوں کا بس آج کٹنے والا ہے
کہ میرے پاؤں سے دریا لپٹنے والا ہے
اٹھو کہ اب تو تمازت کا ذائقہ چکھ لیں
شجر کا سایہ شجر میں سمٹنے والا ہے
تو پھر یقین کی سرحد میں وار کر مجھ پر
گماں کی دھند میں جب تیر اچٹنے والا ہے
تو اتنا جس کی ضیا باریوں پہ نازاں ہے
غبار شب سے وہ چہرہ بھی اٹنے والا ہے
یہ ایک سایہ غنیمت ہے روک لو ورنہ
یہ روشنی کے بدن سے لپٹنے والا ہے
غزل
سفر سرابوں کا بس آج کٹنے والا ہے
شعیب نظام