EN हिंदी
سفر سرابوں کا بس آج کٹنے والا ہے | شیح شیری
safar sarabon ka bas aaj kaTne wala hai

غزل

سفر سرابوں کا بس آج کٹنے والا ہے

شعیب نظام

;

سفر سرابوں کا بس آج کٹنے والا ہے
کہ میرے پاؤں سے دریا لپٹنے والا ہے

اٹھو کہ اب تو تمازت کا ذائقہ چکھ لیں
شجر کا سایہ شجر میں سمٹنے والا ہے

تو پھر یقین کی سرحد میں وار کر مجھ پر
گماں کی دھند میں جب تیر اچٹنے والا ہے

تو اتنا جس کی ضیا باریوں پہ نازاں ہے
غبار شب سے وہ چہرہ بھی اٹنے والا ہے

یہ ایک سایہ غنیمت ہے روک لو ورنہ
یہ روشنی کے بدن سے لپٹنے والا ہے