اک ایسا وقت بھی صحرا میں آنے والا ہے
کہ راستہ یہاں دریا بنانے والا ہے
شہباز خواجہ
کسی نے دیکھ لیا تھا جو ساتھ چلتے ہوئے
پہنچ گئی ہے کہاں جانے بات چلتے ہوئے
شہباز خواجہ
کتنے گلشن کہ سجے تھے مرے اقرار کے نام
کتنے خنجر کہ مری ایک نہیں پر چمکے
شہباز خواجہ
متاع جاں ہیں مری عمر بھر کا حاصل ہیں
وہ چند لمحے ترے قرب میں گزارے ہوئے
شہباز خواجہ
مجھے یہ ضد ہے کبھی چاند کو اسیر کروں
سو اب کے جھیل میں اک دائرہ بنانا ہے
شہباز خواجہ
سفر کا ایک نیا سلسلہ بنانا ہے
اب آسمان تلک راستہ بنانا ہے
شہباز خواجہ
وہ ایک تو کہ ترے غم میں اک جہاں روئے
وہ ایک میں کہ مرا کوئی رونے والا نہیں
شہباز خواجہ
یوں تو ممکن نہیں دشمن مرے سر پر پہنچے
پہرے داروں میں کوئی آنکھ جھپک جاتا ہے
شہباز خواجہ