EN हिंदी
بھٹک رہے ہیں غم آگہی کے مارے ہوئے | شیح شیری
bhaTak rahe hain gham-e-agahi ke mare hue

غزل

بھٹک رہے ہیں غم آگہی کے مارے ہوئے

شہباز خواجہ

;

بھٹک رہے ہیں غم آگہی کے مارے ہوئے
ہم اپنی ذات کو پاتال میں اتارے ہوئے

صدائے صور سرافیل کی رسن بستہ
پلٹ کے جائیں گے اک روز ہم پکارے ہوئے

شکست ذات شکست حیات بھی ہوگی
کہ جی نہ پائیں گے ہم حوصلوں کو ہارے ہوئے

اے میرے آئینہ رو اب کہیں دکھائی دے
اک عمر بیت گئی خال و خد سنوارے ہوئے

متاع جاں ہیں مری عمر بھر کا حاصل ہیں
وہ چند لمحے ترے قرب میں گزارے ہوئے

زمیں پہ ذرۂ بے نام تھے مگر شہبازؔ
بلندیوں پہ پہنچ کر ہمیں ستارے ہوئے