EN हिंदी
خاک زادہ ہوں مگر تا بہ فلک جاتا ہے | شیح شیری
KHak-zada hun magar ta-ba falak jata hai

غزل

خاک زادہ ہوں مگر تا بہ فلک جاتا ہے

شہباز خواجہ

;

خاک زادہ ہوں مگر تا بہ فلک جاتا ہے
میرا ادراک بہت دور تلک جاتا ہے

تیری نسبت کو چھپاتا تو بہت ہوں لیکن
تیرا چہرہ مری آنکھوں سے جھلک جاتا ہے

اک حقیقت سے ابھر آتا ہے ہر شے کا وجود
ایک جگنو سے اندھیرا بھی چمک جاتا ہے

یوں تو ممکن نہیں دشمن مرے سر پر پہنچے
پہرے داروں میں کوئی آنکھ جھپک جاتا ہے

میں فقط خاک پہ رکھتا ہوں جبیں کو شہبازؔ
آسماں خود ہی مری سمت سرک جاتا ہے