کسی نے دیکھ لیا تھا جو ساتھ چلتے ہوئے
پہنچ گئی ہے کہاں جانے بات چلتے ہوئے
سفر سفر ہے کبھی رائیگاں نہیں ہوتا
سر سحر چلی آئی ہے رات چلتے ہوئے
سنا ہے تم بھی اسی دشت غم سے گزرے ہو
سو ہم نے کی ہے بڑی احتیاط چلتے ہوئے
ہم اپنی اکھڑی ہوئی سانسوں کو بحال کریں
کہیں رکھے تو سہی کائنات چلتے ہوئے
ہوا رکی تو عجب حسن تھا مگر شہبازؔ
گرا گئی ہے کئی سوکھے پات چلتے ہوئے

غزل
کسی نے دیکھ لیا تھا جو ساتھ چلتے ہوئے
شہباز خواجہ