کب گوارا ہے مجھے اور کہیں پر چمکے
میرا سورج ہے تو پھر میری زمیں پر چمکے
کتنے گلشن کہ سجے تھے مرے اقرار کے نام
کتنے خنجر کہ مری ایک نہیں پر چمکے
جس نے دن بھر کی تمازت کو سمیٹا چپ چاپ
شب کو تارے بھی اسی دشت نشیں پر چمکے
یہ تری بزم یہ اک سلسلۂ نکہت و نور
جتنے تاریک مقدر تھے یہیں پر چمکے
یوں بھی ہو وصل کا سورج کبھی ابھرے اور پھر
شام ہجراں ترے اک ایک مکیں پر چمکے
آنکھ کی ضد ہے کہ پلکوں پہ ستارے ٹوٹیں
دل کی خواہش کہ ہر اک زخم یہیں پر چمکے
غزل
کب گوارا ہے مجھے اور کہیں پر چمکے
شہباز خواجہ