EN हिंदी
سفر کا ایک نیا سلسلہ بنانا ہے | شیح شیری
safar ka ek naya silsila banana hai

غزل

سفر کا ایک نیا سلسلہ بنانا ہے

شہباز خواجہ

;

سفر کا ایک نیا سلسلہ بنانا ہے
اب آسمان تلک راستہ بنانا ہے

تلاشتے ہیں ابھی ہم سفر بھی کھوئے ہوئے
کہ منزلوں سے ادھر راستہ بنانا ہے

سمیٹنا ہے ابھی حرف حرف حسن ترا
غزل کو اپنی ترا آئینہ بنانا ہے

مجھے یہ ضد ہے کبھی چاند کو اسیر کروں
سو اب کے جھیل میں اک دائرہ بنانا ہے

سکوت شام الم تو ہی کچھ بتا کہ تجھے
کہاں پہ خواب کہاں رت جگا بنانا ہے

اسی کو آنکھ میں تصویر کرتے رہتے ہیں
اب اس سے ہٹ کے ہمیں اور کیا بنانا ہے

در ہوس پہ کہاں تک جھکائیں سر شہبازؔ
ضرورتوں کو کہاں تک خدا بنانا ہے