آئینہ چپکے سے منظر وہ چرا لیتا ہے
تو سجاتا ہے بدن جب کبھی عریانی سے
سرفراز نواز
بدن سرائے میں ٹھہرا ہوا مسافر ہوں
چکا رہا ہوں کرایہ میں چند سانسوں کا
سرفراز نواز
بے صدا سی کسی آواز کے پیچھے پیچھے
چلتے چلتے میں بہت دور نکل جاتا ہوں
سرفراز نواز
ہم اپنے شہر سے ہو کر اداس آئے تھے
تمہارے شہر سے ہو کر اداس جانا تھا
سرفراز نواز
عشق ادب ہے تو اپنے آپ آئے
گر سبق ہے تو پھر پڑھا مجھ کو
سرفراز نواز
خدا کرے کہ وہی بات اس کے دل میں ہو
جو بات کہنے کی ہمت جٹا رہا ہوں میں
سرفراز نواز
کتنا دشوار ہے اک لمحہ بھی اپنا ہونا
اس کو ضد ہے کہ میں ہر حال میں اس کا ہو جاؤں
سرفراز نواز
مرے بغیر کوئی تم کو ڈھونڈتا کیسے
تمہیں پتہ ہے تمہارا پتہ رہا ہوں میں
سرفراز نواز
سفر کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا میرا
رکے جو پاؤں تو کاندھوں پہ جا رہا ہوں میں
سرفراز نواز