EN हिंदी
یہ میں نے مانا کہ پہرہ ہے سخت راتوں کا | شیح شیری
ye maine mana ki pahra hai saKHt raaton ka

غزل

یہ میں نے مانا کہ پہرہ ہے سخت راتوں کا

سرفراز نواز

;

یہ میں نے مانا کہ پہرہ ہے سخت راتوں کا
یہیں سے نکلے گا پھر قافلہ چراغوں کا

یوں خوشبوؤں میں ڈبوئے ہوئے رکھوں کب تک
گناہ کیوں نہ میں کر لوں قبول ہاتھوں کا

چراغ پا ہے مری نیند ان دنوں مجھ سے
میں کوئی شہر بسانے لگا تھا خوابوں کا

ہرن سی چوکڑی بھرنے لگے گی ہر دھڑکن
جو ذکر چھیڑ دوں اس کی غزال آنکھوں کا

خمار و کیف و سرور و نشاط کا عالم
میں قرض دار بہت ہوں تمہاری باہوں کا

اے دن تو روشنی دے کر کے اس کے بدلے میں
حساب مانگ نہ مجھ سے سیاہ راتوں کا

بدن سرائے میں ٹھہرا ہوا مسافر ہوں
چکا رہا ہوں کرایہ میں چند سانسوں کا