یہ میں نے مانا کہ پہرہ ہے سخت راتوں کا
یہیں سے نکلے گا پھر قافلہ چراغوں کا
یوں خوشبوؤں میں ڈبوئے ہوئے رکھوں کب تک
گناہ کیوں نہ میں کر لوں قبول ہاتھوں کا
چراغ پا ہے مری نیند ان دنوں مجھ سے
میں کوئی شہر بسانے لگا تھا خوابوں کا
ہرن سی چوکڑی بھرنے لگے گی ہر دھڑکن
جو ذکر چھیڑ دوں اس کی غزال آنکھوں کا
خمار و کیف و سرور و نشاط کا عالم
میں قرض دار بہت ہوں تمہاری باہوں کا
اے دن تو روشنی دے کر کے اس کے بدلے میں
حساب مانگ نہ مجھ سے سیاہ راتوں کا
بدن سرائے میں ٹھہرا ہوا مسافر ہوں
چکا رہا ہوں کرایہ میں چند سانسوں کا
غزل
یہ میں نے مانا کہ پہرہ ہے سخت راتوں کا
سرفراز نواز