ایک رستے کی کہانی جو سنی پانی سے
ہم بھی اس بار نہیں بھاگے پریشانی سے
میری بے جان سی آنکھوں سے ڈھلکتے آنسو
آئینہ دیکھ رہا ہے بڑی حیرانی سے
میرے اندر تھے ہزاروں ہی اکیلے مجھ سے
میں نے اک بھیڑ نکالی اسی ویرانی سے
مات کھائے ہوئے تم بیٹھے ہو دانائی سے
جیت ہم لے کے چلے آئے ہیں نادانی سے
ورنہ مٹی کے گھڑے جیسے بدن ہیں سارے
معرکے سر ہوئے سب جرأت ایمانی سے
آئینہ چپکے سے منظر وہ چرا لیتا ہے
تو سجاتا ہے بدن جب کبھی عریانی سے
غزل
ایک رستے کی کہانی جو سنی پانی سے
سرفراز نواز