یوں اڑاتی ہے جو ہوا مجھ کو
پہلے ہلکا بہت کیا مجھ کو
مدتوں سے یہاں مقفل ہوں
آ کبھی آ کے کھٹکھٹا مجھ کو
آخری وقت آ گیا ہے کیا
دے رہے ہیں سبھی دعا مجھ کو
تجھ تک آنے کبھی نہیں دے گا
میرے حصے کا دائرہ مجھ کو
روزمرہ کی اس کہانی میں
کوئی کردار تو بنا مجھ کو
عشق ادب ہے تو اپنے آپ آئے
گر سبق ہے تو پھر پڑھا مجھ کو
کر کے سودا جو پاؤں کا بیٹھا
دے گیا کوئی راستہ مجھ کو
وہ کوئی عام سا ہی جملہ تھا
تیرے منہ سے برا لگا مجھ کو
غزل
یوں اڑاتی ہے جو ہوا مجھ کو
سرفراز نواز