کسے خبر تھی کہ اس کو بھی ٹوٹ جانا تھا
ہمارا آپ سے رشتہ بہت پرانا تھا
ہم اپنے شہر سے ہو کر اداس آئے تھے
تمہارے شہر سے ہو کر اداس جانا تھا
صدا لگائی مگر کوئی بھی نہیں پلٹا
ہر ایک شخص نہ جانے کہاں روانہ تھا
یوں چپ ہوا کہ پھر آنکھیں ہی ڈبڈبا اٹھیں
نہ جانے اس کو ابھی اور کیا بتانا تھا
کسے پڑی تھی مرا حال پوچھتا مجھ سے
مجھے تو رسم نبھانی تھی مسکرانا تھا
بھنک نہ جانے یہ کیسے لگی ہواؤں کو
کہ مجھ کو راہ گزر پر دیا جلانا تھا
چھپی تھی اس میں ہی تمہید بھی جدائی کی
ہمارا آپ سے ملنا تو اک بہانہ تھا
تجھے خبر ہی نہیں میرے جیتنے والے
ترے لئے تو ہمیشہ ہی ہار جانا تھا
نگاہ شوق سے یوں غیر کو ترا تکنا
نوازؔ اور نہیں کچھ مجھے ستانا تھا
غزل
کسے خبر تھی کہ اس کو بھی ٹوٹ جانا تھا
سرفراز نواز