EN हिंदी
لڑکھڑاتا ہوں کبھی خود ہی سنبھل جاتا ہوں | شیح شیری
laDkhaData hun kabhi KHud hi sambhal jata hun

غزل

لڑکھڑاتا ہوں کبھی خود ہی سنبھل جاتا ہوں

سرفراز نواز

;

لڑکھڑاتا ہوں کبھی خود ہی سنبھل جاتا ہوں
میں بھی رستوں کے ہی برتاؤ میں ڈھل جاتا ہوں

منتیں مجھ سے کیا کرتے ہیں دریا آ کر
اور میں پیاس چھپا کر کے نکل جاتا ہوں

دن وراثت میں مجھے روشنی دے جاتا ہے
وہ دیا ہوں کہ سر شام ہی جل جاتا ہوں

چاک پہ آ کے نہیں چلتی ہے مرضی میری
یہ بہت ہے جو کسی شکل میں ڈھل جاتا ہوں

بے صدا سی کسی آواز کے پیچھے پیچھے
چلتے چلتے میں بہت دور نکل جاتا ہوں

آئینہ روز بھرم رکھتا ہے قائم میرا
ورنہ یہ سچ ہے میں ہر روز بدل جاتا ہوں

آج محفل سے تری اٹھا ہوں شاعر ہو کر
تیری آنکھوں سے لئے ایک غزل جاتا ہوں