مجھ کو ہونا ہے تو درویش کے جیسا ہو جاؤں
منزلیں سب کے لئے اور میں رستہ ہو جاؤں
کتنا دشوار ہے اک لمحہ بھی اپنا ہونا
اس کو ضد ہے کہ میں ہر حال میں اس کا ہو جاؤں
میں نے آنکھوں کو تری غور سے دیکھا ہے بہت
یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ میں اندھا ہو جاؤں
جو حرارت ہے بدن میں وہ ترے لمس کی ہے
تو مجھے گر نہ چھوئے مٹی کا تودا ہو جاؤں
اس قدر لطف بکھرنے میں ملا ہے مجھ کو
میں نے کوشش ہی نہیں کی کبھی یکجا ہو جاؤں
پھر یہ ڈرتا ہوں خدا جانے بھلا کیسا ہو
جی میں آتا ہے کبھی اپنا بھی چہرہ ہو جاؤں
غائبانہ ہی سہی میرا تعارف ہو جائے
میں کہانی کا کسی طرح سے حصہ ہو جاؤں
اس طرح یاد تری آ کے اچک لے مجھ کو
دفعتاً بھیڑ میں چلتے ہوئے تنہا ہو جاؤں
ان طبیبوں کو علاج غم دل کیا معلوم
تم عیادت کو چلے آؤ تو اچھا ہو جاؤں
یوں ہی مٹی میں پڑا ایک ہنر ہوں میں بھی
جوہری مجھ کو پرکھ لے تو میں ہیرا ہو جاؤں
تو نہیں یاد نہیں کوئی نہیں میں بھی نہیں
اور کچھ اور میں کچھ اور اکیلا ہو جاؤں
غزل
مجھ کو ہونا ہے تو درویش کے جیسا ہو جاؤں
سرفراز نواز