ترے خلوص کے قصے سنا رہا ہوں میں
پرانا قرض ہے اب تک چکا رہا ہوں میں
خدا کرے کہ وہی بات اس کے دل میں ہو
جو بات کہنے کی ہمت جٹا رہا ہوں میں
سفر کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا میرا
رکے جو پاؤں تو کاندھوں پہ جا رہا ہوں میں
سماعتوں کے سبھی در یہاں مقفل ہیں
نہ جانے کب سے صدائیں لگا رہا ہوں میں
لگا ہوں آج حفاظت میں خود چراغوں کی
کئی دنوں تو مخالف ہوا رہا ہوں میں
یہ عقل، ہوش، نظر، خواب، لمس، گویائی
لو آج داؤ پہ سب کچھ لگا رہا ہوں میں
کہ جب بھی چاہیں انہیں ڈھونڈ لیں مری آنکھیں
اس احتیاط سے منظر سجا رہا ہوں میں
مرے بغیر کوئی تم کو ڈھونڈتا کیسے
تمہیں پتہ ہے تمہارا پتہ رہا ہوں میں
غزل
ترے خلوص کے قصے سنا رہا ہوں میں
سرفراز نواز