آج پھر اپنی سماعت سونپ دی اس نے ہمیں
آج پھر لہجہ ہمارا اختیار اس نے کیا
سلیم صدیقی
آج رکھے ہیں قدم اس نے مری چوکھٹ پر
آج دہلیز مری چھت کے برابر ہوئی ہے
سلیم صدیقی
اب زمینوں کو بچھائے کہ فلک کو اوڑھے
مفلسی تو بھری برسات میں بے گھر ہوئی ہے
سلیم صدیقی
اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں
دوستو آؤ کہ کچھ خواب دکھاتے ہیں تمہیں
سلیم صدیقی
بیڑیاں ڈال کے پرچھائیں کی پیروں میں مرے
قید رکھتے ہیں اندھیروں میں اجالے مجھ کو
سلیم صدیقی
ہم آدمی کی طرح جی رہے ہیں صدیوں سے
چلو سلیمؔ اب انسان ہو کے دیکھتے ہیں
سلیم صدیقی
ہوں پارسا ترے پہلو میں شب گزار کے بھی
میں بے لباس نہیں پیرہن اتار کے بھی
سلیم صدیقی
اک دھندلکا ہوں ذرا دیر میں چھٹ جاؤں گا
میں کوئی رات نہیں ہوں جو سحر تک جاؤں
سلیم صدیقی
اک ایک حرف کی رکھنی ہے آبرو مجھ کو
سوال دل کا نہیں ہے مری زبان کا ہے
سلیم صدیقی