اک دریچے کی تمنا مجھے دوبھر ہوئی ہے
وہ گھٹن ہی مری سانسوں پہ مقرر ہوئی ہے
آج رکھے ہیں قدم اس نے مری چوکھٹ پر
آج دہلیز مری چھت کے برابر ہوئی ہے
نیند نے نیند سے چونکا کے اٹھایا مجھ کو
خواب میں خواب کی تعبیر اجاگر ہوئی ہے
اس نے راتوں کے تقدس کو کیا ہے مجروح
ایک مٹھی بھی جسے دھوپ میسر ہوئی ہے
جب سے سیکھا ہے ہنر شیشہ گری کا میں نے
بس اسی دن سے یہ دنیا ہے کہ پتھر ہوئی ہے
اب زمینوں کو بچھائے کہ فلک کو اوڑھے
مفلسی تو بھری برسات میں بے گھر ہوئی ہے
ایک مدت سے جو صحرائے مسرت تھی سلیمؔ
غم کے چھوتے ہی وہی چشم سمندر ہوئی ہے
غزل
اک دریچے کی تمنا مجھے دوبھر ہوئی ہے
سلیم صدیقی