EN हिंदी
سلیم صدیقی شیاری | شیح شیری

سلیم صدیقی شیر

15 شیر

کج کلاہی پہ نہ مغرور ہوا کر اتنا
سر اتر آتے ہیں شاہوں کے بھی دستار کے ساتھ

سلیم صدیقی




کون سا جرم خدا جانے ہوا ہے ثابت
مشورے کرتا ہے منصف جو گنہ گار کے ساتھ

سلیم صدیقی




خریدنے کے لئے اس کو بک گیا خود ہی
میں وہ ہوں جس کو منافعے میں بھی خسارا ہوا

سلیم صدیقی




خوف آنکھوں میں مری دیکھ کے چنگاری کا
کر دیا رات نے سورج کے حوالے مجھ کو

سلیم صدیقی




عمر بھر جس کے لئے پیٹ سے باندھے پتھر
اب وہ گن گن کے کھلاتا ہے نوالے مجھ کو

سلیم صدیقی




زخم در زخم سخن اور بھی ہوتا ہے وسیع
اشک در اشک ابھرتی ہے قلم کار کی گونج

سلیم صدیقی