کون کہتا ہے کہ یوں ہی رازدار اس نے کیا
خوب پرکھا ہے مجھے تب اعتبار اس نے کیا
بے حجاب نفس تھا وہ یا کوئی غافل بدن
پیرہن جو بھی دیا ہے تار تار اس نے کیا
آج پھر اپنی سماعت سونپ دی اس نے ہمیں
آج پھر لہجہ ہمارا اختیار اس نے کیا
صرف اک عکس وفا پر ہی نہیں ڈالی ہے خاک
آئینہ سازوں کو بھی گرد و غبار اس نے کیا
اپنے بام و در پہ روشن دیر تک رکھا نہیں
ہر چراغ تمکنت کو بے دیار اس نے کیا
میں فریب شام کی باہوں میں گم تھا اور مرا
صبح کی پہلی کرن تک انتظار اس نے کیا
زندگی سے جنگ میں یہ معرکہ ہوتا رہا
اک رجز میں نے پڑھا اور ایک وار اس نے کیا
وہ اکیلا تھا رہ نسبت میں لیکن جانے کیوں
میری پرچھائیں کو بھی خود میں شمار اس نے کیا
غزل
کون کہتا ہے کہ یوں ہی رازدار اس نے کیا
سلیم صدیقی