EN हिंदी
اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں | شیح شیری
apne jine ke hum asbab dikhate hain tumhein

غزل

اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں

سلیم صدیقی

;

اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں
دوستو آؤ کہ کچھ خواب دکھاتے ہیں تمہیں

تم نے غرقاب سفینے تو بہت دیکھے ہیں
سر پٹکتے ہوئے سیلاب دکھاتے ہیں تمہیں

حسن کا شور جو برپا ہے ذرا تھمنے دو
عشق کا لہجہ نایاب دکھاتے ہیں تمہیں

میرے پھیلے ہوئے دامن کے کبھی ساتھ چلو
منہ چھپاتے ہوئے احباب دکھاتے ہیں تمہیں

چھت پہ آ جاؤ ہر اک کام سے فارغ ہو کر
چاندنی رات کے محراب دکھاتے ہیں تمہیں

کیسے آنکھوں میں اترتے ہیں لہو کے قطرے
کیسے بنتا ہے یہ تیزاب دکھاتے ہیں تمہیں

تم ذرا پیاس کی معراج پہ پہنچو تو سہی
ریگزاروں میں بھی گرداب دکھاتے ہیں تمہیں

ایک مقصد کے لئے امن کی تحریروں میں
خون سے لکھے ہوئے باب دکھاتے ہیں تمہیں