غم حیات مٹانا ہے رو کے دیکھتے ہیں
لہو کا داغ لہو سے ہی دھو کے دیکھتے ہیں
عطش کی نیند بہت بڑھ گئی ہے آنکھوں میں
چلو فرات کی باہوں میں سو کے دیکھتے ہیں
ہمیں ہمارے علاوہ بھی جانتا ہے کوئی
وراثتوں کی یہ پہچان کھو کے دیکھتے ہیں
تمام عمر بہت روئے زندگی کے لئے
اب اپنی لاش پہ کچھ دیر رو کے دیکھتے ہیں
عجیب لوگ ہیں لاشوں میں زندگی کے نشاں
ہر ایک جسم میں نیزہ چبھو کے دیکھتے ہیں
اس آرزو میں بدن ہو گیا ہے زخم آلود
کہ ایک رات گلابوں پہ سو کے دیکھتے ہیں
ہم آدمی کی طرح جی رہے ہیں صدیوں سے
چلو سلیمؔ اب انسان ہو کے دیکھتے ہیں

غزل
غم حیات مٹانا ہے رو کے دیکھتے ہیں
سلیم صدیقی