EN हिंदी
سلیم شہزاد شیاری | شیح شیری

سلیم شہزاد شیر

8 شیر

آگ بھی برسی درختوں پر وہیں
کال بستی میں جہاں پانی کا تھا

سلیم شہزاد




ان کہی کہہ ان سنی باتیں سنا
رہ گیا جو کچھ بھی سوچا سوچ لے

سلیم شہزاد




باتوں میں ہے اس کی زہر تھوڑا
تھوڑا سا مزا شراب جیسا

سلیم شہزاد




ہوا کی زد میں پتے کی طرح تھا
وہ اک زخمی پرندے کی طرح تھا

سلیم شہزاد




کب تک ان آوارہ موجوں کا تماشا دیکھنا
گن چکے ہو ساعتوں کے تار تو واپس چلو

سلیم شہزاد




اسے پتا ہے کہ رکتی نہیں ہے چھانو کبھی
تو پھر وہ ابر کو کیوں سائباں سمجھتا ہے

سلیم شہزاد




وہم و خرد کے مارے ہیں شاید سب لوگ
دیکھ رہا ہوں شیشے کے گھر چاروں اور

سلیم شہزاد




زرد پتے میں کوئی نقطۂ سبز
اپنے ہونے کا پتا کافی ہے

سلیم شہزاد