نہیں ہے کوئی دوسرا منظر چاروں اور
پھیلا ہے تاریک سمندر چاروں اور
زندہ ہوں بس ایک یہی ہے میرا جرم
لوگ کھڑے ہیں لے کر پتھر چاروں اور
کس دریا کو ڈھونڈے یہ جنموں کی پیاس
آگ لگی ہے میرے اندر چاروں اور
وہم و خرد کے مارے ہیں شاید سب لوگ
دیکھ رہا ہوں شیشے کے گھر چاروں اور
چھوٹے سے آنگن میں ہوتی ہے جو بات
پھیلا کرتی ہے وہ اکثر چاروں اور
اپنی باتوں پر بھی نہیں آتا ہے یقیں
اب تو یہاں پھرتے ہیں پیمبر چاروں اور
تنہائی میں بھی سہما سہما ہر شخص
خوف نے پھیلا رکھے ہیں پر چاروں اور
غزل
نہیں ہے کوئی دوسرا منظر چاروں اور
سلیم شہزاد