لگتا ہے وہ آج خواب جیسا
اک شخص کھلی کتاب جیسا
کیا اس میں ہے موج آب جیسا
بے لمس ہے وہ سراب جیسا
ہر شخص پہ سانپ رینگتا ہے
ہے زور ہوس عذاب جیسا
ہر شخص کو رنج نا تمامی
قصے کے ادھورے باب جیسا
باتوں میں ہے اس کی زہر تھوڑا
تھوڑا سا مزا شراب جیسا
میں عکس ہوں اور آئینہ وہ
رشتہ ہے سراب و آب جیسا
غزل
لگتا ہے وہ آج خواب جیسا
سلیم شہزاد