بال و پر ہوں تو فضا کافی ہے
ورنہ پرواز انا کافی ہے
ہم گماں گشت پرندوں کے لیے
آسماں بھی ہو تو ناکافی ہے
اس خدائی سے نہیں کوئی غرض
ہم کو بس نام خدا کافی ہے
یہ جو اک حرف دعا ہے لب پر
نارسا ہو کہ رسا کافی ہے
کچھ نہیں ذات کے صحرا میں مگر
منتشر ہونے کو جا کافی ہے
زرد پتے میں کوئی نقطۂ سبز
اپنے ہونے کا پتا کافی ہے

غزل
بال و پر ہوں تو فضا کافی ہے
سلیم شہزاد