ہاں کہیں جگنو چمکتا تھا چلو واپس چلو
ان سرنگوں میں اندھیرا ہے تو ہو واپس چلو
ہم کو ہر اندھے کی فہم منزلت کا ہے شعور
کہہ رہا ہے قافلے والوں سے جو واپس چلو
اس طرف کے قہقہوں کا راز کچھ کھلتا نہیں
اس لئے اپنے ہی ماتم زار کو واپس چلو
واپسی کے راستے مسدود ہو جانے سے قبل
کس لئے تم ہو اسیر گو مگو واپس چلو
کب تک ان آوارہ موجوں کا تماشا دیکھنا
گن چکے ہو ساعتوں کے تار تو واپس چلو
کھیل کا اسٹیج خالی ہے تو کس کا انتظار
جانے کب کا ہو چکا ہے ختم شو واپس چلو
پیشتر اس کے کہ اپنی داستانیں بھول جاؤ
شہر افسوں میں بھٹکتے راویو واپس چلو
آؤ اب چل کر ذرا گھر میں جلاتے ہیں چراغ
چادر ظلمت اترنے کو ہے سو واپس چلو

غزل
ہاں کہیں جگنو چمکتا تھا چلو واپس چلو
سلیم شہزاد