ہوا کی زد میں پتے کی طرح تھا
وہ اک زخمی پرندے کی طرح تھا
کبھی ہنگامہ زا تھا بے سبب وہ
کبھی گونگے تماشے کی طرح تھا
کھلونوں کی نمائش تھی جہاں وہ
کسی گم گشتہ بچے کی طرح تھا
سنبھلتا کیا کہ سر سر سیل میں وہ
اکھڑتے گرتے خیمے کی طرح تھا
اگلتا بلبلے پھول اور شعلے
وہ چابی کے کھلونے کی طرح تھا
تھے اس کے بال و پر قینچی کی زد میں
وہی تنہا فرشتے کی طرح تھا
انا انکار میں آئینہ ٹوٹا
جو بار دوش چہرے کی طرح تھا
غزل
ہوا کی زد میں پتے کی طرح تھا
سلیم شہزاد