آنسو ہوں ہنس رہا ہوں شگوفوں کے درمیاں
شبنم ہوں جل رہا ہوں شراروں کے شہر میں
سلام ؔمچھلی شہری
آج تو شمع ہواؤں سے یہ کہتی ہے سلامؔ
رات بھاری ہے میں بیمار کو کیسے چھوڑوں
سلام ؔمچھلی شہری
اب ماحصل حیات کا بس یہ ہے اے سلامؔ
سگریٹ جلائی شعر کہے شادماں ہوئے
سلام ؔمچھلی شہری
اے مرے گھر کی فضاؤں سے گریزاں مہتاب
اپنے گھر کے در و دیوار کو کیسے چھوڑوں
سلام ؔمچھلی شہری
عجیب بات ہے میں جب بھی کچھ اداس ہوا
دیا سہارا حریفوں کی بد دعاؤں نے
سلام ؔمچھلی شہری
بجھ گئی کچھ اس طرح شمع سلامؔ
جیسے اک بیمار اچھا ہو گیا
سلام ؔمچھلی شہری
غم مسلسل ہو تو احباب بچھڑ جاتے ہیں
اب نہ کوئی دل تنہا کے قریں آئے گا
سلام ؔمچھلی شہری
کاش تم سمجھ سکتیں زندگی میں شاعر کی ایسے دن بھی آتے ہیں
جب اسی کے پروردہ چاند اس پہ ہنستے ہیں پھول مسکراتے ہیں
سلام ؔمچھلی شہری
کبھی کبھی عرض غم کی خاطر ہم اک بہانا بھی چاہتے ہیں
جب آنسوؤں سے بھری ہوں آنکھیں تو مسکرانا بھی چاہتے ہیں
سلام ؔمچھلی شہری