EN हिंदी
ان غزالان طرح دار کو کیسے چھوڑوں | شیح شیری
in ghazalan-e-tarah-dar ko kaise chhoDun

غزل

ان غزالان طرح دار کو کیسے چھوڑوں

سلام ؔمچھلی شہری

;

ان غزالان طرح دار کو کیسے چھوڑوں
جلوۂ وادئ تاتار کو کیسے چھوڑوں

درد آگیں ہی سہی بربط پس منظر بزم
نشہ ہائے لب و رخسار کو کیسے چھوڑوں

اے تقاضائے غم دہر میں کیسے آؤں
لذت درد غم یار کو کیسے چھوڑوں

میں خزاں میں بھی پرستار رہا ہوں اس کا
موسم گل میں چمن زار کو کیسے چھوڑوں

اے مرے گھر کی فضاؤں سے گریزاں مہتاب
اپنے گھر کے در و دیوار کو کیسے چھوڑوں

ہائے درد دل بیزار کہ ہنگام خمار
دوست کہتے ہیں کہ مے خوار کو کیسے چھوڑوں

آج تو شمع ہواؤں سے یہ کہتی ہے سلامؔ
رات بھاری ہے میں بیمار کو کیسے چھوڑوں