پھولوں کے دیس چاند ستاروں کے شہر میں
برباد ہو رہا ہوں نگاروں کے شہر میں
موج سمن میں زہر ہے باد صبا میں آگ
دم گھٹ رہا ہے یاسمیں زاروں کے شہر میں
آنسو ہوں ہنس رہا ہوں شگوفوں کے درمیاں
شبنم ہوں جل رہا ہوں شراروں کے شہر میں
وہ میں ہوں جس نے شعلۂ ساغر اچھال کر
کی ہے خزاں کی بات بہاروں کے شہر میں
یہ قلعہ اور یہ مسجد شاہ جہاں کا اوج
کس درجہ سرنگوں ہوں مناروں کے شہر میں
اے میری فطرت طرب آگیں خطا معاف
شرمندہ ہوں میں ظلم کے ماروں کے شہر میں
بس میں بنوں گا خسرو مہتاب اے سلامؔ
سوچا ہے یہ دھوئیں کے غباروں کے شہر میں
غزل
پھولوں کے دیس چاند ستاروں کے شہر میں
سلام ؔمچھلی شہری