کبھی کبھی عرض غم کی خاطر ہم اک بہانا بھی چاہتے ہیں
جب آنسوؤں سے بھری ہوں آنکھیں تو مسکرانا بھی چاہتے ہیں
وہ دل سے تنگ آ کے آج محفل میں حسن کی تمکنت کی خاطر
نظر بچانا بھی چاہتے ہیں نظر ملانا بھی چاہتے ہیں
مزا جب آئے کہ انتقاماً میں دل کا آئینہ توڑ ڈالوں
مرے ہی ہاتھوں سجے ہیں اور اب مجھی پہ چھانا بھی چاہتے ہیں
جبھی تو خود آج شہر کے گل رخوں کی تعریف کر رہے ہیں
وہ انتخاب نظر کو میرے اب آزمانا بھی چاہتے ہیں
اگرچہ طوفان رنگ و بو کی شریر لہروں سے تھک چکے ہیں
مگر وہ دل کے نئے تلاطم کی زد میں آنا بھی چاہتے ہیں
سلامؔ آزاد شاعری کی طویل و دشوار راہ میں ہم
کبھی کبھی بربط تغزل پہ گنگنا بھی چاہتے ہیں
غزل
کبھی کبھی عرض غم کی خاطر ہم اک بہانا بھی چاہتے ہیں
سلام ؔمچھلی شہری