EN हिंदी
ہم ایسے لوگ جلد اسیر‌ خزاں ہوئے | شیح شیری
hum aise log jald asir-e-KHizan hue

غزل

ہم ایسے لوگ جلد اسیر‌ خزاں ہوئے

سلام ؔمچھلی شہری

;

ہم ایسے لوگ جلد اسیر‌ خزاں ہوئے
لیکن غرور‌ و تمکنت گلستاں ہوئے

طوفان عہد تازہ ترا شکریہ کہ اب
جتنے ستارے ذہن میں چمکے دھواں ہوئے

آئے ہیں پھول دھوپ سے بچنے مری طرف
میرا ہی دل ہے چاند جہاں میہماں ہوئے

جب تم ملے تو سامنے مے خانہ مل گیا
اور فلسفے حیات کے سب رائیگاں ہوئے

میری نظر سے آج گریزاں ہے گلستاں
میری نظر کی چھاؤں میں غنچے جواں ہوئے

اب کچھ نہیں ہے معبد گیتی خطا معاف
موتی سے اشک صرف مہ و کہکشاں ہوئے

اب ماحصل حیات کا بس یہ ہے اے سلامؔ
سگریٹ جلائی شعر کہے شادماں ہوئے