اب عیادت کو مری کوئی نہیں آئے گا
پھر ہوں بیمار کسی کو نہ یقیں آئے گا
غم مسلسل ہو تو احباب بچھڑ جاتے ہیں
اب نہ کوئی دل تنہا کے قریں آئے گا
اپنے خوابوں کے دریچوں میں جلا لو شمعیں
اور یہ سوچ لو اک ماہ جبیں آئے گا
پھر نگار چمن وادئ فردائے بہار
گل بدست مہ و انجم بہ جبیں آئے گا
ذہن تازہ کے لیے ساز حقیقت چھیڑو
چین اسے صرف تخیل سے کہیں آئے گا
صرف اپنے ہی عزائم پہ بھروسہ کر لے
کام کوئی بھی نہ اے قلب حزیں آئے گا
روز پوجا کے لئے پھول سجاتا ہے سلامؔ
جانے کب اس کا خدا سوئے زمیں آئے گا

غزل
اب عیادت کو مری کوئی نہیں آئے گا
سلام ؔمچھلی شہری