صبح دم بھی یوں فسردہ ہو گیا
اے دل نازک تجھے کیا ہو گیا
سینۂ بربط سے جو شعلہ اٹھا
غم زدوں کے دل کا نغمہ ہو گیا
شکریہ اے گردش جام شراب
میں بھری محفل میں تنہا ہو گیا
رات دل کو تھا سحر کا انتظار
اب یہ غم ہے کیوں سویرا ہو گیا
پوچھئے اس سے غم ساز خلوص
چار ہی دن میں جو رسوا ہو گیا
بجھ گئی کچھ اس طرح شمع سلامؔ
جیسے اک بیمار اچھا ہو گیا
غزل
صبح دم بھی یوں فسردہ ہو گیا
سلام ؔمچھلی شہری