نہ موج بادہ نہ زلفوں نہ ان گھٹاؤں نے
مجھے ڈسا ہے مری شعلہ زا نواؤں نے
غم حیات سے ٹکرا کے گیت بن جانا
سکھا دیا ہے مجھے آپ کی دعاؤں نے
جو کج کلاہ دیار طرب ہیں سب کچھ ہیں
مجھے تو لوٹ لیا ہے مری وفاؤں نے
کبھی کبھی تو سنا ہے ہلا دیے ہیں محل
ہمارے ایسے غریبوں کی التجاؤں نے
تمہارا حسن ہو یا میری شاعری ان کو
امر کیا ہے محبت کی آتماؤں نے
غم حیات و غم دل بہت سہی لیکن
کوئی سوال کیا ہے ابھی گھٹاؤں نے
کسی چمن کسی گل پیرہن کے گھر جائیں
مجھی کو تاک لیا مدھ بھری ہواؤں نے
عجیب بات ہے میں جب بھی کچھ اداس ہوا
دیا سہارا حریفوں کی بد دعاؤں نے
میں بت کدوں سے مقابر میں گرنے والا تھا
مگر سنبھال لیا خوش نظر خداؤں نے
خبر ہے گرم کہ اک ترک لکھنؤ کو سلامؔ
اسیر کر لیا دلی کی اپسراؤں نے
غزل
نہ موج بادہ نہ زلفوں نہ ان گھٹاؤں نے
سلام ؔمچھلی شہری