EN हिंदी
سخی لکھنوی شیاری | شیح شیری

سخی لکھنوی شیر

54 شیر

آنکھوں سے پائے یار لگانے کی ہے ہوس
حلقہ ہمارے چشم کا اس کی رکاب ہو

سخی لکھنوی




اجی پھینکو رقیب کا نامہ
نہ عبارت بھلی نہ اچھا خط

سخی لکھنوی




بات کرنے میں ہونٹ لڑتے ہیں
ایسے تکرار کا خدا حافظ

سخی لکھنوی




بدر اور مہر دو ہیں نام ان کے
اک جمالی ہے ایک جلالی ہے

سخی لکھنوی




بہت خواب غفلت میں دن چڑھ گیا
اٹھو سونے والو پھر آئے گی رات

سخی لکھنوی




برگ گل آ میں تیرے بوسے لوں
تجھ میں ہے ڈھنگ یار کے لب کا

سخی لکھنوی




بوسہ ہر وقت رخ کا لیتا ہے
کس قدر گیسوئے دوتا ہے شوخ

سخی لکھنوی




چرخ پر بدر جس کو کہتے ہیں
یار کا ساغر سفالی ہے

سخی لکھنوی




دفن ہم ہو چکے تو کہتے ہیں
اس گنہ گار کا خدا حافظ

سخی لکھنوی