دل ہی میرا فقط ہے مطلب کا
یا جگر بھی ہے آپ کے ڈھب کا
قیس و فرہاد سے میں ہوں واقف
ہو چکا ہے مقابلہ سب کا
کھائی ہے اک نئی مٹھائی آج
بوسہ پایا ہے یار کے لب کا
مے کدہ میں شراب پیتے ہیں
یہ پتا ہے ہمارے مشرب کا
شیعہ سنی میں تو بکھیڑے ہیں
نام لوں کس کے آگے مذہب کا
ملک الموت سے کہو پھر جائیں
جیتے جی مر چکا ہوں میں کب کا
آپ فرمائیں ہجر کا احوال
میں کروں ذکر وصل کی شب کا
صبح کو جھونکے نیند کے کیسے
کہیں جاگا ہوا ہے تو شب کا
اس کے کوچہ کی بھیک چاہتے ہیں
شوق جاگیر کا نہ منصب کا
رہے دن بھر وہ مدعی میرے
یاد کر کے معاملہ شب کا
برگ گل آ میں تیرے بوسے لوں
تجھ میں ہے ڈھنگ یار کے لب کا
نقد دل دیتا ہوں تو کہتے ہیں
واہ ایسا سخیؔ ہے تو کب کا
غزل
دل ہی میرا فقط ہے مطلب کا
سخی لکھنوی