درد کو گردہ تڑپنے کو جگر
ہجر میں سب ہیں مگر دل تو نہیں
سخی لکھنوی
دیکھیں کہتا ہے خدا حشر کے دن
تم کو کیا غیر کو کیا ہم کو کیا
سخی لکھنوی
دیکھو قلعی کھلے گی صاف اس کی
آئینہ ان کے منہ چڑھا ہے آج
سخی لکھنوی
دل کلیجہ دماغ سینہ و چشم
ان کے رہنے کے ہیں مکان بہت
سخی لکھنوی
ایک دو تین چار پانچ چھ سات
یوں ہی گن لیں گے کم کے کیا معنی
سخی لکھنوی
آنکھوں سے پائے یار لگانے کی ہے ہوس
حلقہ ہمارے چشم کا اس کی رکاب ہو
سخی لکھنوی
ہم ان سے آج کا شکوہ کریں گے
اکھاڑیں گے وہ برسوں کی گڑی بات
سخی لکھنوی
ہمہ تن ہو گئے ہیں آئینہ
خود نمائی سی خود نمائی ہے
سخی لکھنوی
ہچکیاں آتی ہیں پر لیتے نہیں وہ میرا نام
دیکھنا ان کی فراموشی کو میری یاد کو
سخی لکھنوی