عشق کرنے میں دل بھی کیا ہے شوخ
سیکڑوں میں سے اک چنا ہے شوخ
یہ بھی شوخی نئی نکالی ہے
آج دشمن سے کچھ خفا ہے شوخ
اپنی آنکھوں میں رات دن رکھ کر
میں نے خود اس کو کر دیا ہے شوخ
اشک خوں میرے دیکھ کر بولے
اس سے تو کچھ مری حنا ہے شوخ
آنکھ سے گر کے گود میں مچلا
طفل اشک ایسا ہو گیا ہے شوخ
بوسہ ہر وقت رخ کا لیتا ہے
کس قدر گیسوئے دوتا ہے شوخ
چھیڑتی ہے تمہارے زلفوں کو
کس بلا کی مگر صبا ہے شوخ
بر میں آئینہ کے لیا نہ قرار
جان من عکس بھی ترا ہے شوخ
پھر گئی دور سے دکھا کے جھلک
ہجر میں اے سخیؔ قضا ہے شوخ
غزل
عشق کرنے میں دل بھی کیا ہے شوخ
سخی لکھنوی