EN हिंदी
سجاد باقر رضوی شیاری | شیح شیری

سجاد باقر رضوی شیر

16 شیر

چھلکی ہر موج بدن سے حسن کی دریا دلی
بوالہوس کم ظرف دو چلو میں متوالے ہوئے

سجاد باقر رضوی




دو کنارے ہوں تو سیل زندگی دریا بنے
ایک حد لازم ہے پانی کی روانی کے لیے

سجاد باقر رضوی




ہمارے دم سے ہے روشن دیار فکر و سخن
ہمارے بعد یہ گلیاں دھواں دھواں ہوں گی

سجاد باقر رضوی




ہر رنگ ہر آہنگ مرے سامنے عاجز
میں کوہ معانی کی بلندی پہ کھڑا ہوں

سجاد باقر رضوی




کھینچے ہے مجھے دست جنوں دشت طلب میں
دامن جو بچائے ہیں گریبان گئے ہیں

سجاد باقر رضوی




کیا کیا نہ ترے شوق میں ٹوٹے ہیں یہاں کفر
کیا کیا نہ تری راہ میں ایمان گئے ہیں

سجاد باقر رضوی




میں ہم نفساں جسم ہوں وہ جاں کی طرح تھا
میں درد ہوں وہ درد کے عنواں کی طرح تھا

سجاد باقر رضوی




میں سرگراں تھا ہجر کی راتوں کے قرض سے
مایوس ہو کے لوٹ گئے دن وصال کے

سجاد باقر رضوی




من دھن سب قربان کیا اب سر کا سودا باقی ہے
ہم تو بکے تھے اونے پونے پیار کی قیمت کم نہ ہوئی

سجاد باقر رضوی