ہم راز گرفتاری دل جان گئے ہیں
پھر بھی تری آنکھوں کا کہا مان گئے ہیں
تو شعلۂ جاں نکہت غم صوت طلب ہے
ہم جان تمنا تجھے پہچان گئے ہیں
کیا کیا نہ ترے شوق میں ٹوٹے ہیں یہاں کفر
کیا کیا نہ تری راہ میں ایمان گئے ہیں
اس رقص میں شعلے کے کوئی سحر تو ہوگا
پروانے بڑی آن سے قربان گئے ہیں
کھینچے ہے مجھے دست جنوں دشت طلب میں
دامن جو بچائے ہیں گریبان گئے ہیں
باقرؔ ہے اسی گرد رہ دل کا پرستار
جس راہ سے کچھ صاحب دیوان گئے ہیں
غزل
ہم راز گرفتاری دل جان گئے ہیں
سجاد باقر رضوی