مرے سفر کی حدیں ختم اب کہاں ہوں گی
کہ منزلیں بھی تو آخر رواں دواں ہوں گی
یہ فاصلے جو ابھی طے ہوئے ہیں کہتے ہیں
یہ قربتیں ترے احساس پر گراں ہوں گی
جو دن کو رنگ لگیں اور شب کو پھول بنیں
وہ صورتیں کہیں ہوں گی مگر کہاں ہوں گی
وہ ہاتھ روٹھ گئے اور وہ ساتھ چھوٹ گئے
کسے خبر تھی کہ اتنی جدائیاں ہوں گی
سنا تو تھا مگر اس رمز کو سمجھتے نہ تھے
کہ تیری خوش نگہی میں بھی تلخیاں ہوں گی
تلاش تھی گہر درد کی نہ جانتے تھے
کہ بحر دل میں وہ گہرائیاں کہاں ہوں گی
وہ آج انجمن عام بن کے جاگیں ہیں
وہ خلوتیں جو کبھی تیری راز داں ہوں گی
ہمارے دم سے ہے روشن دیار فکر و سخن
ہمارے بعد یہ گلیاں دھواں دھواں ہوں گی
یہ عہد وہ ہے کہ میری وفا کے قصوں میں
تری جفا کی حکایات بھی بیاں ہوں گی
چلے چلو کہ دیار خرد کے اس جانب
سکوں کی چھاؤں میں خوابوں کی بستیاں ہوں گی
تو راہ شوق میں تنہا نہیں ٹھہر باقرؔ
کہ تیرے ساتھ ابھی جگ ہنسائیاں ہوں گی

غزل
مرے سفر کی حدیں ختم اب کہاں ہوں گی
سجاد باقر رضوی